جہاں بھی ہو وہیں سے دو صدا سرکار سُنتے ہیں
سرے آئینہ سُنتے ہیں پسےِ دیوار سُنتے ہیں
میرا ہر سانس اُن کی آہٹوں کے ساتھ چلتا ہے
میرے دل کے دھڑکنے کی بھی رفتار سُنتے ہیں
کھڑے رہتے ہیں اہلِ تخت بھی دہلیز پر اُن کی
فقیروں کی صدائیں بھی شہے ابرار سُنتے ہیں
گناہگارو دردو والہانہ بھیج کر دیکھو
وُہ اپنے اُمتّی کا نغمہ کردار سُنتے ہیں
میں صدقے جاؤں اُن کی رحمت اللعالمینی پر
پکارو چاہے جتنی بار بھی وہ ہر بار سُنتے ہیں
مظفر جب کسی محفل میں اُن کی نعت پڑھتا ہے
میرا ایمان ہے وہ بھی میرے اشعار سُنتے ہیں
0 Comments